۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 397840
4 اپریل 2024 - 02:49
غزہ

حوزہ / غزہ کا المیہ روزبروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جہاں صیہونی مظالم میں اضافہ اور شدت پیدا ہو رہی ہے وہاں عالم دنیا اسے روٹین میں لے کر غافل ہوتی جا رہی ہے۔

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر

حوزہ نیوز ایجنسی | مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ محمد رمضان توقیر نے "غزہ کا المیہ اور یوم القدس" کے موضوع پر تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غزہ میں انسانیت جس کرب میں ہے اس سے اس جدید ترین ذرائع ابلاغ کے دور میں ہر ملک کا ہر شہری تقریباً آگاہ ہے۔ ظلم کا کونسا طریقہ ہے جو صیہونی قابض قوتوں نے انجام نہیں دیا؟ فسطائیت اپنے عروج پر ہے۔ دہشت و وحشت کا کھیل جاری ہے۔ اس بربریت کی زد میں جہاں بوڑھے آرہے ہیں وہاں بچے بھی آرہے ہیں۔ جہاں مرد زد میں ہیں وہاں خواتین بھی زد میں ہیں۔ جہاں عام انسانی رہائشی عمارتیں زد میں ہیں وہاں کاروباری مراکز بھی زد میں ہیں۔ حتیٰ کہ صحت کے مراکز بالخصوص ہسپتال بھی زد میں ہیں۔ جہاں آئے روز اسرائیلی جنگی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے سیکڑوں بچے بچیاں خواتین اور جوان و ضعیف بیمار فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ گذشتہ چھ ماہ کے دوران ہزاروں فلسطینی بچے جوان خواتین اور بوڑھے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔ ضروریات زندگی کی دستیابی ناممکن ہو چکی ہے۔ غزہ ایک کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ امریکی حمایت اور سلامتی کونسل کی جانبدارانہ خاموشی کے سبب اسرائیلی محاصرہ مزید سخت ہوتا جارہا ہے۔ غزہ کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہے جس سے حالات کا صحیح نقشہ دنیا تک نہیں پہنچ پا رہا۔ اب تک جتنے سرکاری غیر سرکاری فلاحی اداروں اور انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والی شخصیات نے غزہ کے مظلومین اور محصورین کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے ہربار اسرائیلی صیہونی حکومت اور فوج رکاوٹ بن جاتی ہے اور کسی قسم کا سامان حتیٰ کہ انسانی زندگی بچانے کے لیے لازم غذائیں اور ادویات تک نہیں پہنچانے دی جاتیں۔ کربلا کا منظر یہ ہے کہ غزہ میں پانی جیسی انسانی ضرورت بھی فراہم کرنے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ جہاں انسان صیہونی بمباری اور دہشت گردانہ کاروائیوں سے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں وہاں زندگی بچانے والی اشیاء کی ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہزاروں انسان موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔ چھ ماہ کے مظالم کے بعد گذشتہ روز سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے قرارداد منظور کر لی ہے لیکن اس پر کتنا عمل کیا جائے گا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ ماضی کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ زیادہ مثبت امیدیں نہیں لگائی جا سکتیں۔

اگرچہ رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کے حکم پر گذشتہ ساڑھے چار دہائیوں سے دنیا بھر میں یوم القدس منایا جارہا ہے لیکن اس سال غزہ اور فلسطین کی جو صورتحال ہے اس سے یوم القدس کی اہمیت و افادیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای اور قائد ملت علامہ ساجد نقوی نے صرف یوم القدس کو نہیں بلکہ حالیہ ماہِ رمضان المبارک کو بھی غزہ اور فلسطین سے موسوم کر دیا ہے۔ یعنی ہم نے صرف ایک دن یوم القدس منا کر غزہ اور فلسطین کو یاد نہیں کرنا بلکہ ماہ رمضان کا پورا مہینہ ہونے والی مذہبی سرگرمیوں اور تقریبات و مصروفیات میں غزہ کے مظلومین اور فلسطین کے محرومین کو یاد رکھنا ہے۔

غزہ کا المیہ روزبروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جہاں صیہونی مظالم میں اضافہ اور شدت پیدا ہو رہی ہے وہاں عالم دنیا اسے روٹین میں لے کر غافل ہوتی جا رہی ہے۔ غاصب اسرائیل کو براہ راست امریکہ اور یورپی اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے اسی حمایت کی وجہ سے اسرائیل بے لگام اور منہ زور جانور کی طرح فلسطینیوں کو کاٹ رہا ہے جسے لگام دینے کے لیے نہ سلامتی کونسل جاگ رہی ہے نہ اقوام متحدہ بیدار ہو رہی ہے نہ او آئی سی کے کانوں پر جوں رینگ رہی ہے۔ عرب لیگ اور سعودی عرب کی قیادت و میزبانی میں بننے والے اتحاد کا تو ذکر ہی نہ کریں جس کی غیرت کو ہزاروں بچوں کی لاشیں ابھی تک نہیں جھنجوڑ سکیں۔جبکہ عرب ممالک کی اکثریت آج بھی نہ صرف فلسطینیوں کی حمایت نہیں کر رہی بلکہ فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ دوستی کے عہد ہو رہے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ایک واحد اسلامی ملک ایران ہے جو ہر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے وہ فلسطین کے ساتھ بھی بلاتفریق مسلک و مکتب کھڑا ہوا ہے۔ ایران نہ صرف مظلوم فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد انسانی ہمدردی کے تحت ہر ممکن مدد کررہا ہے بلکہ پوری دنیا بالخصوص عالمی اداروں میں غزہ کا کیس پوری طاقت اور جرات سے لڑ رہا ہے۔ ایران نے مظلوم فلسطینیوں کی اصولی حمایت میں ہزاروں الزمات اپنے سر لئے۔ ہزاروں دشمنیاں مول لیں۔ ہزاروں پابندیاں اپنے اوپر لیں۔ کئی ممالک سے تعلقات داؤ پر لگائے۔ اپنی معیشت کو متاثر کرنے سے خوفزدہ نہیں ہوا۔حماس اور تحریک آزادی فلسطین کے ساتھ ہر ممکن اور عملی مدد سے گریز نہیں کیا چاہے اس کے لیے ایران کو کوئی بھی قیمت چکانا پڑی۔

غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہمارا دینی شرعی اور اخلاقی تقاضہ ہے۔ دنیا کے ہر مظلوم کے ساتھ محبت اور حمایت کا اظہار ہی اصل اسلام ہے۔ حضرت امام خمینی ؒ نے بھی اسی اسلام کا تعارف کرایا جو مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت کرنے کا حکم دیتاہے۔ انہی تعلیمات کے پس منظر میں امام راحل نے یوم القدس منانے کا اس لیے اعلان کیا تاکہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت اور اسرائیل جیسے ظالم کی مذمت کی جائے۔ اس سال بھی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں 25 رمضان المبارک کو یوم القدس اپنے روایتی تزک و احتشام اور اسلامی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے پاکستان میں یوم القدس قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کی ہے۔ اس سال بھی فلسطین کے حق میں برآمد ہونے والی احتجاجی ریلیوں میں اور مظاہروں میں ملک کے کونے کونے سے صدائے احتجاج بلند کی جائے گی۔ جبکہ مختلف سیمیناروں اور کانفرنسوں میں تمام مسالک اور مکاتب فکر کے قائدین اور ذمہ داران اپنی وحدت کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ کو باور کرائیں گے کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں اور یہ ساتھ نبھاتے رہیں گے۔ اسی طرح پورے ملک کے علمائے کرام اور تمام مسالک کے آئمہ جمعہ و جماعت بلاتفریق مسلک و مکتب اپنے خطبات میں غزہ کے مظلومین کے لیے عوام سے حمایتی قرارداوں کے ذریعے حمایت کا عہد لیں گے۔ اور امت مسلمہ کو بتائیں گے کہ قبلہ اول اور فلسطین کے معاملے پر ہم متحد اور متفق ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .